"پہلے نرمی اپنائیں – سنت کا راستہ، دلوں کا علاج"

 


وقت واقعی زخموں کا علاج ہے —

لیکن یہ علاج صرف جسم کے زخموں کے لیے ہوتا ہے۔

دلوں کے زخم — خاص طور پر وہ جو الفاظ سے لگیں — ہمیشہ نہیں بھرتے۔
یہ زخم کبھی کبھار چھپ جاتے ہیں، نظر انداز ہو جاتے ہیں، یا ہنسی میں ٹال دیے جاتے ہیں —
لیکن کئی بار سالوں بعد بھی کوئی ایک جملہ
ویسے ہی چبھتا ہے جیسے پہلے دن چبھتا تھا۔

💔 الفاظ کا وزن ہوتا ہے – احتیاط سے استعمال کریں

اللہ نے ہمیں زبان کا تحفہ دیا ہے —
ایسا تحفہ جس کے ذریعے یا تو جنت نصیب ہو سکتی ہے یا جہنم۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"بندہ کبھی اللہ کی رضا کی بات کر دیتا ہے، جسے وہ معمولی سمجھتا ہے، مگر اللہ اس کی وجہ سے اس کے درجات بلند کر دیتا ہے۔ اور بندہ کبھی ایسی بات کر دیتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے، جسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا، مگر وہی بات اسے جہنم میں گرا دیتی ہے۔"
(بخاری و مسلم)

لہٰذا، ہو سکتا ہے آپ کی بات درست ہو، آپ کی دلیل صحیح ہو —
لیکن آپ کا انداز، آپ کے الفاظ کی مٹھاس یا کڑواہٹ — یہ زیادہ اہم ہے۔

کڑوی بات اگر نرمی سے کہی جائے تو دوا بن جاتی ہے —
اور سچی بات اگر سخت لہجے میں کہی جائے تو زہر بن جاتی ہے۔

🕊 نرمی کمزوری نہیں — یہ طاقت کی سنت ہے

ہمارے پیارے نبی ﷺ
سب سے زیادہ نرم گفتار، شفیق اور بردبار تھے — حتیٰ کہ دشمنوں اور منافقین کے ساتھ بھی۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں حکم دیتے ہیں:

"اور لوگوں سے بھلی بات کہو۔"
(سورۃ البقرہ 2:83)

اور سخت کلام کے بارے میں فرماتے ہیں:

"اگر آپ سخت مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے گرد سے بکھر جاتے۔"
(سورۃ آل عمران 3:159)

پس اے عزیز بھائیو اور بہنو،
اگر ہم واقعی کسی کو سمجھانا چاہتے ہیں، کسی مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں، یا کسی کی غلطی کی اصلاح چاہتے ہیں —
تو پہلے اپنے لہجے، اپنی نیت، اور اپنے دل کو چیک کریں۔

🧭 پہلے اپنا جائزہ لیں، پھر کسی اور کو دیکھیں

کسی کی غلطی نکالنے سے پہلے خود سے پوچھیں:

·         کیا میں انا (ego) سے بول رہا ہوں یا خلوص سے؟

·         کیا میں یہ لہجہ اپنے لئے برداشت کر سکتا ہوں؟

·         کیا میں نے رسول اللہ ﷺ کا طریقہ اپنایا ہے — نرمی، محبت، اور دل سے دعا؟

سچ اگر بدتمیزی کے ساتھ بولا جائے تو نصیحت نہیں بنتا —
وہ ذاتی حملہ بن جاتا ہے۔

🌿 نرم رہیں — اور دیکھیں کہ کیسے سکون آتا ہے

نرمی صرف اچھا اخلاق نہیں —
یہ دل کی صفائی ہے، زخموں کا مرہم ہے، اور رشتوں میں سکون کی کنجی ہے۔

جب آپ نرم انداز میں بات کرتے ہیں:

·         آپ کی بات دل میں اترتی ہے۔

·         آپ کا دل بھی پرسکون رہتا ہے۔

·         اور دوسرا شخص ضد کرنے کی بجائے سوچنے لگتا ہے۔

🤲 ہم سب کے لیے ایک پیاری یاد دہانی

نرم بنیں۔ صبر کریں۔ نبی ﷺ کی سنت کے مطابق بات کریں۔
کسی پر تنقید کرنے سے پہلے،
ذرا اپنے اخلاق کا آئینہ دیکھ لیں —
شاید ہمیں اپنی ہی زبان میں وہ کمی مل جائے
جس کی وجہ سے تعلقات بگڑتے ہیں۔

ان شاء اللہ جب ہم اپنی زبان سنوار لیں گے —
تو بہت سی بگڑی ہوئی چیزیں خود بخود ٹھیک ہونے لگیں گی:
رشتے، دلوں کے زخم، اور دوسروں کا رویہ بھی۔

آئیے ہم خود کسی کے دل کا درد نہ بنیں —
بلکہ کسی کے زخم کا مرہم بنیں۔

یہی اصل سنت کا راستہ ہے۔

 

 

Comments

Popular posts from this blog

🌍 "خادم الحرمین الشریفین" — یہ خطاب یا امانت؟

🌟 سورۃ الکہف – توحیدِ خالص اور اللہ کی لامحدود طاقت کی سورۃ

📜 صحیح بخاری حدیث نمبر 4855 – مکمل ترجمہ و تشریح